اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا کے مطابق، ایک
اردنی عرب ڈرائیور نے کل [اتوار 8 ستمبر 2024ع کو] اردن اور مغربی کنارے کی سرحد
پر تین صہیونی فوجیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
واضح رہے کہ اردن کی 60 فیصد آبادی فلسطینیوں پر مشتمل ہے اور یہ لوگ اسرائیل کے خلاف لڑنے کے لئے پوری طرح سے تیار ہیں، اور صہیونیوں کے لئے نیا اور خطرناک چیلنج بن سکتے ہیں، گوکہ انگریز ماں کے بیٹے ہاشمی بادشاہ عبداللہ بن حسین کے خائنانہ اور غدارانہ موقف اور اردن کی خفیہ ایجنسیوں کی شدید گرفت کی وجہ سے فلسطینی ـ اردنی کافی حد تک حکومت کے قابو میں ہیں لیکن کل کی کامیاب کاروائی اور اس کی بین الاقوامی عکاسی سے معلوم ہوتا ہے کہ اردنی معاشرہ (بشمول فلسطینی و غیر فلسطینی) نقطۂ ابال (Boiling point) تک پہنچا ہے۔
کل کی کاروائی کرنے والا شخص فلسطینی نژاد نہیں تھا بلکہ ایک اردنی نژاد شہری تھا؛ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ آج کی شہادت پسندانہ کاروائی صہیونی جرائم پر امت مسلمہ کی شدید اور ناقابل برداشت ناراضگی کی علامت ہے اور اسرائیلیوں کو جان لینا چاہئے کہ ان کی درندگیوں کا جواب اقوام عالم اور امت مسلمہ کے مظاہروں تک محدود رہے گا اور عین ممکن ہے کہ حالات اس سطح پر پہنچ جائیں کہ دنیا بھر میں کہیں بھی کسی اسرائیلی کو امن نصیب نہ و سکون نصیب نہ ہو۔
بعید از قیاس ہے کہ اردنی حکومت ـ جس کو مغربی دنیا نے اسرائیلی بقاء کے تحفظ کا مشن سونپا ہے ـ اپنا مشن نظر انداز کر دے اور مقاومت (Resistance) کا ساتھ دے چنانچہ اردن میں معاشرے اور حکومت کے درمیان تناؤ کی بھی توقع کی جاتی ہے۔
اردنی ڈرائیور نے صہیونی فوجیوں کو 9-ایم ایم پستول کے ذریعے نشانہ بنایا جو انھوں نے اپنے ٹرک میں چھپا کر رکھا تھا۔ اور اہم سوال یہ ہے کہ اس شہادت پسند مجاہد نے شدید سیکورٹی انتظامات اور اردنی خفیہ ایجنسیوں کی کڑی نگرانی کے باوجود ہتھیار تک رسائی کیونکر حاصل کی ہے؟
بہرصورت، توقع کی جاتی ہے کہ اردن بھی صہیونیوں کے خلاف ایک نئے محاذ کی صورت اختیار کرے لیکن یہ محاذ فوجی کاروائیوں سے ہٹ کر، ناگہانی کاروائیوں تک محدود ہوگا۔
یاد رہے کہ صہیونیوں نے کہا تھا کہ اس شہادت پسند اردنی ڈرائیور کا نام ماہر الخزی تھا، اور اردنی سرکار نے ان کو "دہشت گرد" تو قرار دیا ہے مگر صہونیوں کی شائع کردہ معلومات کی تردید کی ہے اور اس شہید سے ملنے والے شناختی کارڈ کے اوپر ان کا نام "عبدالسلام خالد سلیم الزعبی" درج ہؤا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
تحریر: علی رضا تقوی نیا
ترتیب و ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔
110

